دنیا کے تمام مذاہب کی طرح دینِ
اسلام میں بھی ابتدا سے ہی خرق عادت کے متعدد واقعات موجود ہیں۔
خرقِ عادت در اصل وہ عمل ہے جس کا احاطہ انسان کی عقل کسی خاص زمانہ
ومکان میں بظاہر نہیں کرپاتی ہے۔ اسی عمل کو دینی
اصطلاح میں معجزے اور کرامت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا
پر مخصوص ذہن رکھنے والے بعض حضرات کی تحریروں سے یہ ظاہر ہوتا
ہے کہ یہ عناصر اللہ کے نیک اور متقی بندوں سے کسی خرق
عادت عمل کے ظاہر ہونے کے یکسر منکر ہیں؛ جب کہ قرآن کریم کا ہر
طالب علم ایسے متعدد واقعات سے واقف ہے جن کاذکر انبیاء کرام اور متقی
لوگوں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔
اسی لیے قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ ۱۴۰۰
سال سے اس بات پر مکمل طور سے متفق ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح خرقِ
عادت عمل (یعنی معجزہ) ابنیاء کرام کے ذریعہ ظاہر کرتا
ہے، وہیں خرقِ عادت عمل (یعنی کرامات) اپنے متقی پرہیزگار
بندوں کے ذریعہ بھی ظاہر کرتا ہے۔
ہندوستان و پاکستان کے علماء کی طرح پوری
دنیا کے علماء خاص طور پر سعودی عرب کے علماء بھی اس بات پر
متفق ہیں کہ اللہ کے حکم سے اللہ والوں کے ذریعہ ایسے خرقِ عادت
اعمال ظاہر ہوتے ہیں جن کا احاطہ انسان کی عقل نہیں کرپاتی
ہے۔ اس سلسلہ میں سعودی عرب کے علماء کی رائے اور سعودی
عرب کے مشہور عالم دین شیخ عبدالعزیز بن باز کا فتویٰ
ان کی آفیشیل ویب سائٹ پر پڑھا جاسکتا ہے اور سنا بھی
جاسکتا ہے۔ اس مختصر مضمون میں دلائل پر گفتگو نہیں کی
جاسکتی، صرف ایک حدیث قدسی پیش ہے: حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جس نے میرے کسی ولی سے
دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا
بندہ میری طرف سے فرض کی ہوئی اُ ن چیزوں سے جو
مجھے پسند ہیں، میرا قرب زیادہ حاصل کرسکتا ہے، اور میرا
بندہ نوافل کے ذریعہ مجھ سے قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں
اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تومیں اس
کا کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا
ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاوٴں بن جاتا ہوں جس
سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور
اگر وہ میری پناہ کا طالب ہوتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا
ہوں۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب الرقاق ۔ باب التواضع)
ایسے بہت سے امور ہیں جہاں تک
ہماری عقل کی رسائی نہیں ہے اور ہم اُن کو من وعن تسلیم
کرلیتے ہیں۔ اسی طرح قرآن وحدیث کی روشنی
میں امتِ مسلمہ کے ہر مسلک کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ
کے حکم سے بعض ایسے کام یعنی کرامات اس کے برگزیدہ بندوں
کے ذریعہ رونما ہوتی ہیں جنھیں انسانی عقل بہ ظاہر
قبول نہیں کرتی؛ تاہم عقیدہ کی بنیا د پر ان کا یقین
کیا جاتاہے۔
اس موضوع پر سعودی عرب کے جید
علماء کا موقف درج ذیل لنک کے ذریعہ پڑھا جاسکتا ہے جس میں
وضاحت کے ساتھ مذکور ہے کہ انبیاء کرام کے ذریعہ خرق عادت عمل کا ظہور
معجزہ ہے؛ جب کہ اولیاء اللہ کے ذریعہ خرق عادت عمل کا واقع ہونا
کرامت کہلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بعض وجوہات کے پیش نظر خرق
عادت بعض اعمال اللہ کے نیک بندوں کے ذریعہ ظاہر کرتا ہے اور یہ
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے:
http://www.alifta.net/fatawa/fatawaDetails.aspx?BookID=5&View=Page&PageNo=1&PageID=231
سعودی عرب کے مشہور ومعروف عالم دین
شیخ عبد العزیز بن باز کا بھی یہی موقف ہے جو اس لنک پر پڑھا جاسکتا
ہے:
http://www.binbaz.org.sa/noor/1354
موضوع بحث مسئلہ میں سعودی
عرب کے علماء کرام کے فتاوی کا خصوصی تذکرہ؛ اس لیے کیا گیا
ہے؛ کیونکہ لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی
ہے کہ علماء سعودی عرب اولیاء کرام سے واقع ہونے والی کرامات کو
تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ سعودی علماء کے موقف کا ایک
سرسری مطالعہ اس غلط فہمی کا مکمل طور پر ازالہ کردیتا ہے۔
جہاں تک ہندوستان اور پاکستان کے علماء کا تعلق ہے تو ان کا اس موضوع پر قطعاً کوئی
اختلاف نہیں ہے کہ خرق عادت کسی عمل کا انبیاء کرام سے اظہار
”معجزہ“ کہلاتاہے؛ جب کہ اللہ کے دوسرے برگزیدہ بندوں سے ایسے کسی
عمل کا رونما ہونا ”کرامات“ کہلاتا ہے۔
اگر تاریخ کی کتابوں میں
اللہ کے کچھ مخصوص نیک بندوں کے حوالے سے خرق عادت کوئی واقعہ منسوب
ہے تو کوئی وجہ ایسی نہیں ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ
کے حکم سے واقع ہونے والی اُس کرامت کے انکار کو اپنے ایمان کی
بنیاد بنالیں۔ اب اگر کوئی شخص کسی برگزیدہ
عالم دین سے ظاہر ہونے والے کسی خرق عادت عمل کو کرامت تسلیم
کرتا ہے تو ایسے شخص کو قرآن وحدیث کی روشنی میں کس
بنیاد پر گمراہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر کوئی اپنی بدعقلی
میں ایسے شخص پر گمراہی کی تہمت لگاتا ہے تو یہ
قرآن وسنت کی خلاف ورزی اور اس سے انحراف ہے۔
ابتداء اسلام سے ہی بے شمار علماء
کرام نے اولیاء کرام کے کرامات کو قلمبند کیا ہے۔ اس ضمن میں
علامہ ابن تیمیہ (۶۶۱- ۷۲۸ھ) کا حوالہ اور ذکر مناسب ہوگا۔
بلاشبہ ان کی شخصیت کو عالم اسلام میں قدرومنزلت کی نگاہ
سے دیکھا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی مشہور کتاب (الفرقان بین
اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان) میں اولیاء کرام کے
ذریعہ رونما ہونے والی ایسی کرامات اور واقعات کا ذکر کیا
ہے جنہیں بہ ظاہر عقل تسلیم نہیں کرتی ہے۔ اس کتاب
کے صفحہ ۲۲۲ سے ۲۳۰ تک تابعین کے
کرامات کے متعدد واقعات موجود ہیں، جن میں سے چند واقعات کا ترجمہ پیش
ہے۔ انھوں نے اپنی اسی کتاب میں یہ بھی ذکر کیا
ہے کہ صحابہٴ کرام کے مقابلہ میں تابعین میں کرامات کے
واقعات زیادہ ہوئے۔
یمن کے رہنے والے مشہور تابعی
حضرت عبد اللہ بن ثوب (ابو مسلم) الخولانی کوجھوٹی نبوت کا دعوی کرنے والے الاسود العنسی
نے بلایا اور کہا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں
اللہ کا رسول ہوں؟ انھوں نے کہا کہ میں تیری بات نہیں سن
رہا۔ اس نے کہا: تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔
انھوں نے کہا: جی ہاں، وہ اللہ کے رسول ہیں؛ چنانچہ آگ دہکاکر انھیں
اس میں ڈال دیا گیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ جلتی
ہوئی آگ میں اطمینان سے نماز کی ادائیگی
کررہے ہیں، اور وہ آگ اُن کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی کی
جگہ بن گئی۔
مشہور تابعی حضرت عامر بن قیس
اپنی آستین
میں دو ہزار درہم خیرات کے لیے لے کر نکلتے اور راستے میں
ملنے جلنے والے ہر سائل کو گنے بغیر اس میں سے دیتے جاتے، پھر
جب گھر واپس لوٹتے تو ان دراہم کی تعداد اور وزن میں کوئی کمی
نہیں ہوتی۔ اسی طرح قافلہ کے پاس سے آپ کا گزر ہوا جس کو
ایک شیر نے روک رکھا تھا۔ آپ نے شیر کے پاس جاکر اپنے
کپڑے سے اس کامنہ پکڑا اور اس کی گردن پر اپنا پیر رکھ کر فرمایا
”تو اللہ کے کتوں میں سے ایک کتا ہے اور مجھے اللہ سے شرم آتی
ہے کہ اس کے سوا کسی اور چیز سے ڈروں“ اور یوں قافلہ گزر گیا۔
انھوں نے اللہ سے دعا کی کہ ان کے لیے سردی میں وضو کرنا
آسان ہوجائے؛ چنانچہ اس کے بعد ان کے پاس جو بھی پانی پیش ہوتا
اس سے بھاپ نکلتی رہتی۔
مشہور تابعی حضرت حسن بصری حجاج کی نظر
سے ایسا اوجھل ہوئے کہ چھ مرتبہ لوگ اُن کے پاس گئے اور انھیں نہ دیکھ
سکے۔ ایک شخص آپ کو تکلیف دیتا تھا آپ نے اس کے لیے
بددعا کی اور وہ فوراً مرگیا۔
مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیب
کے زمانہ میں
حرة کی طرف سے جب مدینہ منورہ محصور ہوا تو حضرت سعید بن المسیب
نماز کے اوقات میں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
قبر سے اذان کی آواز سنتے تھے؛ حالانکہ مسجد بالکل خالی ہوتی تھی۔
مشہور تابعی حضرت اویس قرنی
کی جب وفات
ہوئی تو ان کے کپڑے کے اندر کفن ملے جو پہلے سے ان کے پاس نہیں تھے، اور
ایک پتھریلی زمین میں ان کی قبر بھی
کھودی ہوئی تیار ملی؛ چنانچہ اسی کفن کے ساتھ اسی
قبر میں دفن کردیا گیا۔
مشہور تابعی حضرت ابراہیم تیمی
ماہ دو ماہ بغیر
کچھ کھائے رہ جاتے تھے۔ ایک مرتبہ اپنے گھر والوں کے لیے کھانا
لانے کی غرض سے نکلے اور کچھ میسر نہ ہوسکا تو سرخ ریت کی
ایک گٹھری باندھ لی۔ جب گھر والوں کے پاس پہنچے اور گھر
والوں نے گٹھری کھولی تو دیکھا کہ سرخ گیہوں ہیں۔
وہ جب اس گیہوں کو بوتے تھے تو اس سے ایسی بالیاں نکلتی
تھیں کہ جڑ سے لے کر شاخ تک دانوں سے لدی ہوتی تھیں۔
مشہور تابعی حضرت مطرف بن عبداللہ
بن الشخیر جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تھے تو ان کے ساتھ ساتھ ان کے
گھر کے برتنوں سے بھی تسبیح کی آواز آتی تھی، وہ
اور ان کے ایک ساتھی اکثر اندھیرے میں چل رہے ہوتے تو ان
کے کوڑے کے سرے سے روشنی نکلتی تھی اور اندھیرا ختم
ہوجاتا تھا۔
قبیلہ نخع کے ایک شخص کا گدھا
راستہ میں مرگیا۔ اس شخص کے دیگر ساتھیوں نے کہا کہ
چلو ہم تمہارا سامان اپنے درمیان تقسیم کرلیتے ہیں یعنی
تمہارا سامان ہم اپنے گدھوں پر تھوڑا تھوڑا رکھ لیتے ہیں۔ اُن
صاحب نے کہا کہ مجھے تھوڑی مہلت دو؛ چنانچہ انھوں نے اچھی طرف وضو کیا
، دو رکعات نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے خوب دعا کی۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے گدھے کو زندہ کردیا، پھر انھوں نے اپنا
ساز وسامان دوبارہ اپنے گدھے پر رکھ دیا۔
مشہور تابعی حضرت عمرو بن عتبہ ایک دن نماز
پڑھ رہے تھے،گرمی سخت تھی، اچانک بادل ان پر سایہ کرنے لگا۔
جب وہ جہاد میں اپنے ساتھیوں کی سواریوں (جانوروں) کو
چراتے تھے تو چیر پھاڑ کرنے والے جانور بھی سواریوں کی
حفاظت کرتے تھے۔
مشہور تابعی حضرت عبد الواحد بن زید
فالج کے شکار ہوگئے۔ انھوں نے اللہ سے دعا کی
کہ وضو کرتے وقت ان کے اعضاء درست ہوجائیں؛ چنانچہ وہ جب بھی وضو کرتے
تھے ان کے اعضاء درست ہوجاتے تھے۔ وضو سے فراغت کے بعد ان کے اعضاء پہلے کی
طرح مفلوج ہوجاتے تھے۔
مشہور تابعی حضرت عتبہ الغلاماللہ سے تین چیزوں کی دعا مانگتے تھے۔ اچھی
آواز ، وافر مقدار میں آنسو اور بغیر کچھ کیے کھانا؛ چنانچہ جب
وہ تلاوت کرتے تھے وہ خود بھی روتے تھے اور دوسروں کو بھی رلاتے تھے۔
آنکھوں سے آنسو کافی دیر تک جاری رہتے تھے۔اور جب اپنے
گھر جاتے تھے تو گھر میں کھانے کی چیزیں خود ہی مل
جاتی تھیں او رانھیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ یہ
چیزیں کہاں سے میسرہوئیں؟
یہ چند واقعات میں نے دنیا
کے مشہور ومعروف عالم دین علامہ ابن تیمیہ کی کتاب (الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء
الشیطان) سے نقل کیے ہیں۔ یہ بات واضح کرنا مناسب
سمجھتا ہوں کہ شریعت اسلامیہ کے اصول ومآخذ قرآن وحدیث یا
قرآن وحدیث کی روشنی میں اجماعِ امت اور قیاس ہی
ہیں۔ بزرگوں کے واقعات سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا ہے؛ لیکن
نیک لوگوں کے واقعات سے بصیرت وعبرت ضرور حاصل ہوتی ہے۔
اس استفادہ کے پیش نظر ابتدا سے ہی بزرگوں کی کرامات اور اُن کے
واقعات تحریر کیے جاتے رہے ہیں؛ لیکن کتابوں میں
مذکور بعض کرامات اور واقعات کی بنیاد پر اہل سنت والجماعت کے کسی
مکتب فکر یاعالم دین (خواہ وہ کسی بھی مسلک کا ہو) کی
تضحیک کرنا یا تکفیر کرنا یا اس کو برا بھلا کہنا قطعاً دین
نہیں ہے؛ بلکہ قرآن وحدیث کی تعلیمات کی سراسر خلاف
ورزی ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری بحث
ومباحثہ سے ایسا یقین ہوتا ہے کہ بعض حضرات اصلاح کے نام پر
ملتِ اسلامیہ میں تخریب اور فساد برپا کرنے پر مصر ہیں
اور ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ ”اصلاح مذہبیت“ کا فریب
دے کر اپنے حلقے کو وسیع کریں۔ یہ بھی دیکھا
جارہاہے کہ اس طرح کے لوگ کسی متقی عالم دین یا کسی
مکتب فکر کی دینی واصلاحی خدمات کو ذکر کرنے کے بجائے اُن
پر کیچڑ اچھالنا اپنی انا کی تسکین اور اپنے تخریبی
مشن کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس بات سے ہم سب ہی واقف ہیں کہ
اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف ابنیاء کرام ہی معصومیت
کے درجے پر فائز ہیں۔ بقیہ تمام لوگ غلطی کے مرتکب ہوسکتے
ہیں۔ ہمارے علماء دین بھی بشر ہیں اور ان سے غلطی
بھی ہوسکتی ہے اور کوتاہی بھی؛ لیکن اپنے ذاتی
مفادت حاصل کرنے کے لیے علماء دین یا کسی مکتبہٴ
فکر کی تضحیک یا سب وشتم ایک شیطانی عمل ہے۔
اختلاف رائے بالکل کیا جاسکتا ہے؛ لیکن اپنے بارے میں یہ
بتانا بھی ضروری ہے کہ علماء دین کی اِس تذلیل وتضحیک
سے کس اسلامی مسلک کی یا کس سیاسی جماعت کی
خدمت مقصود ہے؟
اپنی ذات کا محاسبہ کرنے کے ساتھ
ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور میں دست بہ دعا ہیں کہ
مسلمانوں کو اخوت ومحبت کے اصول پر کاربند رہ کر دینِ اسلام پر چلنے اور
دوسروں کو اس کی دعوت دینے والا بنائے۔ آمین۔
انسان کی عقل چونکہ محدود ہے؛ اس لیے
یہ ضروری نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے رونما
ہونے والے معجزات وکرامات کا مکمل طور پر احاطہ کرلے، لہٰذا ایک سلیم
الطبع دینی سمجھ کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں
کی شناخت کرنی چاہیے، جن کا واحد مشن دین اسلام کی
تضحیک وتذلیل اور ملت اسلامیہ میں انتشار پیدا کرکے
اسلام دشمن طاقتوں کی خدمت کرنا ہے۔
$$$
--------------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد:101 ، رجب 1438
ہجری مطابق اپریل 2017ء